tiktok

امریکی ایلچی امدادی تقسیم کے بڑھتے ہوئے مایوس کن حالات کے درمیان غزہ پہنچ گئے۔

ٹرمپ کے ایلچی کا غزہ کا اہم دورہ، امدادی مراکز کا معائنہ

1 اگست 2025 کو، امریکہ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف اور سفیر مائیک ہکیبی نے ایک اہم اور نازک دورے میں غزہ کا سفر کیا تاکہ وہاں امدادی تقسیم کے مراکز کا معائنہ کر سکیں۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا جب اسرائیل پر فلسطینیوں کو بھوکا رکھنے کی پالیسی اپنانے کا الزام لگایا جا رہا ہے، اور دنیا بھر میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ چکی ہے۔

1. زمینی حقائق کیا ہیں؟

غزہ کے تباہ حال علاقوں میں فلسطینی شہری خوراک کی کمی کے باعث شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ لوگ کم ہوتے امدادی پیکج لینے کے لیے طویل قطاروں میں لگنے پر مجبور ہیں۔ اس دوران شدید بدنظمی اور ہجوم کے باعث زیکم کے امدادی مراکز کے قریب 91 افراد ہلاک اور 600 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ اسی طرح زاویدا میں ہوائی جہاز سے گرائے گئے امدادی سامان کی طرف دوڑنے کے نتیجے میں بھی کئی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔

مئی 2025 سے اب تک 1000 سے زائد افراد امداد حاصل کرنے کی کوشش کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ امداد متنازعہ تنظیم غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن (GHF) کے ذریعے تقسیم کی جا رہی ہے، جسے امریکہ اور اسرائیل کی حمایت حاصل ہے۔

2. یہ دورہ کیوں اہم ہے؟

وائٹ ہاؤس نے تصدیق کی ہے کہ اس دورے کا مقصد زمین پر موجود حقائق کا جائزہ لینا، متاثرہ فلسطینیوں سے بات چیت کرنا اور امدادی تقسیم کا ایک حتمی منصوبہ تیار کرنا ہے، جو صدر ٹرمپ کو منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔

اس سے قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کے اس بیان کو رد کر دیا تھا جس میں انہوں نے بھوک کے الزامات کو مسترد کیا تھا۔ ٹرمپ نے واضح طور پر کہا: "غزہ میں حقیقی بھوک کا سامنا ہے”۔

وٹکوف نے 31 جولائی کو نیتن یاہو سے ملاقات بھی کی تاکہ انسانی بنیادوں پر جنگ بندی، امدادی راہداری اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ممکنہ فریم ورک پر بات چیت کی جا سکے۔

3. انسانی بحران کی شدت

ماہرین خبردار کر چکے ہیں کہ غزہ میں حالات قحط کے بدترین منظرنامے کی طرف جا رہے ہیں۔ ستمبر 2025 تک 5 لاکھ سے زائد افراد بھوک سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ امدادی ٹرکوں کی تعداد ضروری حد سے کہیں کم ہے، جبکہ غذائی قلت سے متعلق اموات میں جولائی کے دوران شدید اضافہ ہوا ہے۔

متعدد بین الاقوامی امدادی تنظیموں نے GHF کے نظام کو غیر مؤثر اور خطرناک قرار دیا ہے، کیونکہ یہ نظام محدود رسائی، عسکری کنٹرول اور امریکی نجی سیکیورٹی پر انحصار کرتا ہے—جس سے بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی کے خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔

4. سیاسی اثرات

یہ بحران اب اسرائیل کے قریبی اتحادیوں کو بھی جھنجھوڑ چکا ہے۔ جرمنی، برطانیہ، فرانس اور کینیڈا نے اسرائیل پر سفارتی دباؤ میں اضافہ کیا ہے، اور بعض ممالک فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ عالمی رہنماؤں جیسے ایمانوئل میکرون اور کیئر اسٹارمر نے فوری جنگ بندی اور مکمل امدادی رسائی پر زور دیا ہے۔

دوسری جانب واشنگٹن میں سینیٹر مارک کیلی جیسے قانون سازوں نے فوری خوراکی پیکٹ بھیجنے اور امدادی حکمت عملی کو مزید مؤثر بنانے کی تجاویز دی ہیں۔

ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اس بحران کے حل کے لیے یرغمالیوں کی رہائی اور حماس کا غیر مسلح ہونا ضروری ہے، اور انہوں نے GHF کی حمایت جاری رکھنے کا اعلان بھی کیا ہے۔

5. آگے کیا ہوگا؟

وٹکوف اور ہکیبی اپنے غزہ دورے کے بعد صدر ٹرمپ کو رپورٹ دیں گے اور ایک ایسا قابلِ عمل منصوبہ پیش کریں گے جس سے خوراک اور ادویات کی محفوظ ترسیل ممکن بنائی جا سکے۔ ممکنہ طور پر نئے امدادی مراکز بغیر باڑ اور فوجی رکاوٹوں کے قائم کیے جائیں گے، جیسا کہ صدر ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے۔

اسی دوران سفارتی کوششیں بھی جاری ہیں۔ حماس نے اشارہ دیا ہے کہ اگر انسانی بحران کم کیا جائے تو وہ جنگ بندی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر آمادہ ہو سکتی ہے۔ جنگ بندی کی شرائط میں یرغمالیوں کی رہائی اور مکمل امدادی رسائی شامل ہوں گی۔

ادھر اقوام متحدہ، این جی اوز اور بین الاقوامی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ موجودہ جزوی امدادی ترسیل جیسے کہ ہوائی ڈراپ، نہ صرف ناکافی بلکہ خطرناک بھی ہیں۔

واٹس ایپ چینل

Join Now